اشاعتیں

نعتِ ‏رسولﷺ ‏

تو کریمی من کمینہ بردہ ام ​ لیکن از لطفِ شما پروردہ ام  یا اللہ تو رحیم و کریم ہےاور میں کم ظرف انسان ہوں لیکن تیرے لطف و کرم سے ہی میری بقا ہے زندگی آمد برائے بندگی زندگی بے بندگی شرمندگی مقصدِ حیات اللہ کے احکامات پر عمل پیرا ہونا ہے اللہ کے احکامات سے رو گردانی میں خسارہ ہی خسارہ ہے یادِ او سرمایئہ ایمان بود ہر گدا از یادِ او سلطان بود اللہ کی یاد دین و ایمان کی دولت ہے ایک ادنیٰ انساں اس کے احکامات پر علم پیرا ہو کر سلطاں بن جاتا ہے سید و سرور محمد نورِ جاں مہتر و بہتر شفیعِ مجرماں (ہمارے) سردار حضرت محمد ﷺ کائنات کی جان اور نور ہیں آپ ﷺ گنہگاروں کی شفاعت کرنے والے ہیں چوں محمدﷺ پاک شد از نارو دود ہر کجا روکرد وجہہ اللہ بود حضورِ پاک ﷺ کائنات کی مصفہ ترین پاک ترین ہستی ہیں آپ جس چیز کا بھی حکم دیں وہ حکمِ خداوندی ہے شہبازی لا مکانی جانِ او رحمتہ اللعٰلمیں در شانِ او آپ ﷺ کو عرشِ معلیٰ پر معراج کرئی گئ آپ ﷺ دونوں جہانوں کے لئے رحمت ہیں مھترین و بہترینِ انبیاء جز محمد ﷺ نیست در ارض و سماں آپ ﷺ انبیاء کے سردار امام الانبیاء ہیں آپ ﷺ کے مثل کائنات میں کوئی نہیں آں محمد ﷺ حامد و محمود ش

بی بی بلقیس کے دل پر حقیر ھُد ھُد کی صورت کے ذریعے حضرت سلــیمان علیه اسلام کی تعظیم کا عکس

بی بی بلقیس کے دل پر حقیر ھُد ھُد کی صورت کے ذریعے حضرت سلــیمان علیه اسلام کی تعظیم کا عکس بی بی بلقیس کے دل پر حقیر ھُد ھُد کی صورت کے ذریعے حضرت سلــیمان علیه اسلام کی تعظیم کا عکس ........ ملک یمن کے شھرِ سبا کی حکمران بی بی بلقیس تہیں جن کا قصہ قُرآن میں مذکور ہے .... رحمتِ صد تو براں بلقےس باد کہ خدایش عقلِ صد مرداں بداد " اُس بلقیس پہ سؤ دفعہ رحمت ہو جس کو خدا نے سینکڑوں مردوں کا عقل عطا فرمایا." بی بی بلقیس اگرچہ عورت تہی پر الله سبحان و تعالیٰ نے ان کو سؤ 100 مردوں کا عقل عطا فرمایا تھا.  حضرت سلیمان علیه اسلام نے ھُد ھُد کے ذریعے بی بی بلقیس کو خط بھیجا تھا. وہ ظاہری طور پر تو ھُد ھُد ہی تھا پر جیساکہ حضرت سلــیمان علیه اسلام کا قاصد تھا، اسی لیئے باطنی نگاہ نے اس کو " عنقــا "  سمجھا.  دو چیزیں جو بظاہر حقیر ہیں پر باطن میں عظیم ہیں، ان کے لیئے عقل اور حِس کے درمیاں جنگ ہوتی رہتی ہے. کافر، حضورﷺ کی ظاہری بشریت کو دیکھتے تھے. محض ظاہر بین نگاھ عقلی اور مذھب کی دشمن ہے، خدا نے اُن کو اندھا قرار دیا ہے. قرآن پاک میں ہے کہ" قُل ھَل یـَستَ

حضرت لقمان علیه السلام کی ذہانت کی آزمائش

حضرت لقمان علیه السلام کی ذہانت کی آزمائش   اس قصے کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح حضرت لقمان علیه  السلام نے دوست کے ہاتھوں کڑوا اخروٹ بھی رغبت (آمادگی، رضا مندی) سے کھایا،  اسی طرح ایک انسان کو بھی من جانبِ اللّٰه مصیبتوں پہ راضی برضاءِ الاهی رہنا چاہیئے ـ   کیا ایسا نہیں تھا کہ لقمان علیه السلام جو کہ بھترین غلام تھا ،  رات دن خدمت گذاری میں چُست تھا ـ آقا اُن کو معزز اور اپنی اولاد سے زیادہ پیارا رکھتا تھا ـ حضرت لقمان علیه السلام کو اگرچہ ولی اور بزرگ مانا جائے تو غلام زادہ ہونے میں کوئی اعتراز نہیں ہے ـ  اور اگرچہ وہ نبی تھے تو اُن کے والد کو جبراً غلام بنایا گیا ہوگا... جیسے لقمان علیه السلام ہوا اور ہوس سے آزاد تھے اس لیئے غلام نہیں پر آقا تھے.  ہوا اور ہوس بادشاھ نے ایک بزرگ کو کہا کہ مجھسے بخشش / انعام میں کچھ مانگو. بزرگ نے کہا یہ بات تمہارے مقام سے گری ہوئی ہے. تمہیں شرم نہیں آرہی کہ مجھے بول رہے ہو؟ تم اپنے دو غلاموں کے غلام ہو. بادشاھ بولا وہ دو غلام کون سے ہیں؟ کہ غلاموں کا غلام ہونا میرے لیئے باعث ذلت ہے ـ  بزرگ نے کہا ایک غصہ اور دوسرا شہوت ہےـ ب

*▼▼**ایک چرواہے کا دعا مانگنا اور حضرت موسیٰ علیه اسلام کا اُس کو ڈانٹنا..**▼▼*

▼▼ایک چرواہے کا دعا مانگنا اور حضرت موسیٰ علیه اسلام کا اُس کو ڈانٹنا▼ زرگ رومی رح علیه نے فرمایا تھا کہ _اللَه تعالیٰ کی حقیقی تعریف امکان سے باہر ہے_ ، *پھر بھی جس طرح ہوسکے تعریف کرنی چاہیئے.* اسی مناسبت سے یہ قصہ نقل کیا ہے کہ چرواہے کی ناشائستہ تعریف جیساکہ خلوصِ نیت سے تھی اسی لیئے اللَه تعالیٰ نے قبول کی. *دید ٰموسیٰ ع یک شُبانے را براہ* *کوہمی گفت اے کریم و اے آلہ* ترجمہ: - "حضرت موسیٰ علیه اسلام نے ایک چرواہے کو راستے میں دیکھا جو کہہ رہا تھا کہ: اے کریم، ای خدا تم کہاں ہو." میں تمہارا نوکر بنوں، تمہارا جوتا سیؤں، تمہارے سر میں کنگی کروں، تمہاری خدمت کروں، تمہارے کپڑے سیؤں، تمہارے کپڑے دھؤں، جوئیں ماروں، تمہیں دودھ پلاؤں، تم بیمار ہو تو تمہارا غمخوار بنوں، تمہاری مالش کروں، تمہارا بستر جہاڑکر صاف کروں کہ تم سو سکو، میرا گھر بار اور میری جان تم پر قربان. اگرچہ مجھے تمہارے گھر کا پتا معلوم ہو تو صبح شام تمہارے لیئے دودھ، گھی، پنیر اور دھی لاؤں اور تم کھاؤ. میری ساری بکریاں آپ پر قُربان.. چرواہا ایسی باتیں کر رہا تھا کہ حضرت موسیٰ عل

ذولنون معنیٰ مچھلی والا. حضرت ثوبان بن ابراھیم رح پر یہ لقب پڑا ـ

ذولنون معنیٰ مچھلی والا. حضرت ثوبان بن ابراھیم رح پر یہ لقب پڑا ـ وہ ایک بہت بڑے بزرگ تھے جس کا سبب یہ بنا کہ ایک سفر کہ دوران ایک کشتی میں سوار تھے اور اس کشتی میں سے کسی تاجر کا ایک نایاب موتی چوری ہوگیا. لوگوں نے بزرگ پر تہمت لگائی اور اس وجہ سے حضرت ثوبان رح نے عاجزانہ دعا مانگی تو سینکڑوں مچہلیاں اپنے مُنہ میں اُس جیسے موتی لیکر نمودار ہوئیں ـ بزرگ رومی رح فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے "جنونِ عشق" کی نسبت سے ذولنون کے عشق کا قصّہ ذکر کیا پر اُس سے ہرگز یہ نہ سمجھنا کہ میں اپنے عشق کو اُن کے عشق جیسا سمجھتا ہوں. اُن کا عشق تمام بلند تھاـ وہ جنون عشق میں ریاکاروں (ڈھونگی ـ ظاہردار) کا پردہ فاش کرتے تھے، جس کی وجہ سے وہ لوگ شرمندہ ہوتے تھے. عوام میں فتنہ کرنہ ممنوع ہے مگر ذولنون اس سلسلے میں مجبور تھے. عوام کی طرف سے ذولنون کو فقط قیدخانے کی تکلیف برداشت کرنی پڑی تھی دیگر بزرگوں کو تو جان کے خطرات لاحق ہوئے. عوام بزرگوں کے باطن نہیں سمجھ پائی. ان کے ظاہر پر بزرگی کی کوئی نشانی نہیں ہوتی. پہلے بزرگ رومی رح نے ذولنون کو دُرِیتیم کہا تھا، مگر اب فرماتے ہیں

حضرت لقمان علیه السلام کی ذہانت کی آزمائش

حضرت لقمان علیه السلام کی ذہانت کی آزمائش .............................. اس قصے کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح حضرت لقمان علیه السلام نے دوست کے ہاتھوں کڑوا اخروٹ بھی رغبت (آمادگی، رضا مندی) سے کھایا، اسی طرح ایک انسان کو بھی من جانبِ اللّٰه مصیبتوں پہ راضی برضاءِ الاهی رہنا چاہیئے ـ کیا ایسا نہیں تھا کہ لقمان علیه السلام جو کہ بھترین غلام تھا ، رات دن خدمت گذاری میں چُست تھا ـ آقا(مالک) اُن کو معزز اور اپنی اولاد سے زیادہ پیارا رکھتا تھا ـ حضرت لقمان علیه السلام کو اگرچہ ولی اور بزرگ مانا جائے تو غلام زادہ ہونے میں کوئی اعتراز نہیں ہے ـ اور اگرچہ وہ نبی تھے تو اُن کے والد کو جبراً غلام بنایا گیا ہوگا... جیسے لقمان علیه السلام ہوا اور ہوس سے آزاد تھے اس لیئے غلام نہیں پر آقا تھے. ہوا اور ہوس بادشاھ نے ایک بزرگ کو کہا کہ مجھسے بخشش / انعام میں کچھ مانگو. بزرگ نے کہا یہ بات تمہارے مقام سے گری ہوئی ہے. تمہیں شرم نہیں آرہی کہ مجھے بول رہے ہو؟ تم اپنے دو غلاموں کے غلام ہو. بادشاھ بولا وہ دو غلام کون سے ہیں؟ کہ غلاموں کا غلام ہونا میرے لیئے باعث ذلت ہے ـ بزرگ نے

عقلمند کی دشمنی نادان کی دوستی سے بہتر ہے.

ا یک امیر کا اُس سوتے ہوئے کو تکلیف دینا جس کے منہ میں سانپ گھس گیا اقلے براَسپ می آمد سوار در دبانِ خفتہ می رفت مار ایک عقلمند گھوڑے پر سوار تھا کہ اُس نے دیکھا کہ ایک سوتے ہوئے شخص کے منہ میں سانپ گھس رہا ہے۔ گھوڑے سوار نے دیکھا تو اس کی طرف بھاگا کہ اُس کو بچائے مگر موقعہ نہ ملا. سانپ اُس کے منہ میں گھس گیا. گھوڑے سوار عقلمند تھا سوتے ہوئے کو اس نے کوڑے مارنا شروع کیئے. اُس نے اٹھ کے دیکھا تو ایک تُرک گھوڑے سوار اس کو کوڑے لگا رہا ہے. حیران تھا کہ آخر کیوں مار رہا ہے ؟ سو اُٹھ کے بھاگا. دوڑتے دوڑتے ایک درخت کے پاس آکر پہنچا جہاں پر سڑے ہوئے سیب پڑے تھے. وہ سیب کھانے لگا. اتنے سیب کھائے جو اس کہ منہ سے آنے لگے. سوار نے بولا اور کھاؤ! بندہ بولا: میںنے تم پر کوئی ظلم تو نہیں کیا ـ تمہیں اگر مجھے مارنا ہے تو ایک دفعہ میں ہی مار دو. وہ شخص مبارکباد کے قابل ہے جس نے تمہارے جیسے ظالم کا چہرا نہیں دیکھا. خدا بے دین کو ایسی سزا دے. تُرک گھوڑے سوار نے سوتے ہوئے کا پیچھا نہ چھوڑا . دوبارہ دوڑنے پر مجبور کیا. اس کے پاؤں پھٹ گئے . سیبوں سے پیٹ بھرا ہوا تھا . شام تک تُرک گ