*▼▼**ایک چرواہے کا دعا مانگنا اور حضرت موسیٰ علیه اسلام کا اُس کو ڈانٹنا..**▼▼*

▼▼ایک چرواہے کا دعا مانگنا اور حضرت موسیٰ علیه اسلام کا اُس کو ڈانٹنا▼

زرگ رومی رح علیه نے فرمایا تھا کہ _اللَه تعالیٰ کی حقیقی تعریف امکان سے باہر ہے_ ، *پھر بھی جس طرح ہوسکے تعریف کرنی چاہیئے.* اسی مناسبت سے یہ قصہ نقل کیا ہے کہ چرواہے کی ناشائستہ تعریف جیساکہ خلوصِ نیت سے تھی اسی لیئے اللَه تعالیٰ نے قبول کی.
*دید ٰموسیٰ ع یک شُبانے را براہ**کوہمی گفت اے کریم و اے آلہ*

ترجمہ: - "حضرت موسیٰ علیه اسلام نے ایک چرواہے کو راستے میں دیکھا جو کہہ رہا تھا کہ: اے کریم، ای خدا تم کہاں ہو."

میں تمہارا نوکر بنوں، تمہارا جوتا سیؤں، تمہارے سر میں کنگی کروں، تمہاری خدمت کروں، تمہارے کپڑے سیؤں، تمہارے کپڑے دھؤں، جوئیں ماروں، تمہیں دودھ پلاؤں، تم بیمار ہو تو تمہارا غمخوار بنوں، تمہاری مالش کروں، تمہارا بستر جہاڑکر صاف کروں کہ تم سو سکو، میرا گھر بار اور میری جان تم پر قربان. اگرچہ مجھے تمہارے گھر کا پتا معلوم ہو تو صبح شام تمہارے لیئے دودھ، گھی، پنیر اور دھی لاؤں اور تم کھاؤ. میری ساری بکریاں آپ پر قُربان..

چرواہا ایسی باتیں کر رہا تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ اسلام نے اسے کہا کہ تمہاری ان باتوں سے کفر اور الحاد _ بے راہ روی، کج روی، ناراستی_) پھیلےگا اور دین میں رُخنہ پیدا ہوگا. کیا تمہیں پتا بھی ہے کہ تم کس سے مخاطب ہو؟ چرواہے نے جواب دیا! اُسی سے جس نے ہمیں اور زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے ـ
حضرت موسیٰ علیہ اسلام نے اسے کہا ایک شخص کا گناہ اوروں پر بھی اثرانداز ہوتا ہے. اگرچہ عذاب ابھی نہیں آیا ہے تو اُس کے آثار آگئے ہیں جس کی وجہ سے دل سیاہ ہو گیا ہے.
بےوقوف دوست سے عقلمند دشمن بہتر ہے. غذا کی اس کو زرورت ہے جس کا جسم ہو اور اُس کی نشونمہ ہوتی ہو. اللَه تعالیٰ کو نہ ہی پیروں کی ضرورت ہے، ہاں، نہ ہی جوتوں کی ضرورت ہے. ان ساری باتوں سے الله تعالیٰ پاک ہے.
کچھ خدا کے نیک بندے ایسے ہوتے ہیں جو اپنی شخصیت اور خواھشات کو فنا کرکے حضرتِ حق کی مرضی کے مطابق خؤد کو ڈھال لیتے ہیں..

� ایسے لوگوں کے لیئے حدیث پاک میں ہے کہ *اللَه تعلیٰ قیامت میں بنی آدم کو خطاب کرتے ہوئے فرمائینگے* �*"اِنی مرضتُ لم تعدنی"*� ✔*میں بیمار ہوا تھا! تم مزاج پُرسی پر آئے نہیں؟*✘ اس سے مراد یہ ہے کہ میرا یہ خاص بندہ جب بیمار ہوا تھا تب تم نے اُس کی مزاج پرسی کیوں نہیں کی؟

ایسے ہی کوگوں کے بارے میں ایک اور حدیث شریف میں آیا ہے کہ، یہ ایسا بندہ ہوتا ہے جس کے لیئے اللَه تعالیٰ فرماتا ہے ★*بـِی یَســمَعُ وَ بـِی یُبــصِــرُ*★ : ✔*یہ میرے ذریعے سے سُنتا ہے اور میرے ذریعے دیکھتا ہے* ✘" یعنیٰ اُس کی قوتِ سامعہ اُس بات کو سُنتی ہے جو میری مرضی کے مطابق ہو اور قوتِ باصرہ اس کو دیکھتی ہے جس میں میری رضا ہو. اللَه تعالیٰ کے اِن مخصوص بندوں سے گُستاخانہ باتیں دل کو مُردہ اور اعمال نامے کو سِیاہ کر دیتیں ہیں.

فاطمہ کی معنیٰ ہیں دودھ چُھڑانے والی، جو کہ جنتی عورتوں کی سردار اور آپﷺ کی صاحبزادی ع کا نام مبارک ہے. جو کہ ہر عورت اپنے لیئے پسند کرتی ہے مگر کسی مرد کو کہو تو وہ برا سمجھے گا. انسان کے ہاتھ اور پاؤں میں نُقص ہو تو عیب ہے. اللَه تعالیٰ کے لیئے یہ ہی بات ثابت کروگے تو تنزیہہ ( بے عیبی، پاکیزگی، صفائی) کے منافی ہے. � *لَم یَـــلِد وَلَم یـُـــولَد� ✔وہ نہ کسی کا باپ ہےاور نہ کسی کا بیٹا*✘

چرواہے نے حضرت موسیٰ علیه اسلام کو بولا کہ آپ ع نبی ہیں اس لیئے آپ ع کی اطاعت ضروری ہے. اللّٰه کا ذِکِر چھوڑنا شرمندگی ہے یہ ہی بات میرے روح کو جلا رہی ہے ذکر کی محرومی کی وجہ سے وہ اپنے کپڑے پھاڑنے لگا اور بیابان کا رُخ کیا.

▼▼چرواہے کی وجہ سے اللّٰه تعالیٰ کی حضرت موسیٰ علیه اسلام پر ناراضگی ...▼▼

وحی آمد سوئے موسیٰ.علیہ اسلام از خدا

بنـــدۂ مـــارا زمــا کــــــردی جـُدا

ترجمہ : الله تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ علیہ اسلام پر وحی آئی کہ تم نے ہمارے بندے کو ہم سے سے جُدا کردیا.

ذکر کی وجہ سے جو اس کو قرب حاصل تھا وہ نہ رہا. انبیائوں کی بعثت کا مقصد مخلوق کو خالق سے وابستہ کرنا ہے . حدیث شریف میں ہے کہ ★اَبَغَضُ الحَلَالَ عِنداللّٰهِ الطّلَاقُ★ ✔ حلال اشیا میں سے طلاق الله کو سب سے زیادہ ناپسند ہے ✘

طلاق سے میاں بیوی کی جدائی ہوتی ہے. ہر انسان اپنے استعداد اور اپنے مروّج الفاظوں میں تعاریف کرتا ہے. جب کہ دل میں عقیدت ہے تو اُس کی تعاریف بھرحال مقبول ہے اور اس کی حمد اُس کے لیئے باعث تعاریف ہے. ایک عام آدمی اپنی استعداد مطابق تعاریف کرتا ہے. اگرچہ یہ ہی الفاظ کوئی پڑھا لکھا بولے تو اُس کے لیئے بُرائی ہے.
آپﷺ نے ایک گونگے بندے سے پوچھا کہ " خُدا کہاں ہــے؟ " اُس نے جواب دیا کہ آسمانوں میں ہے تو اُس کا کہنا اُس کے لیئے نور بنا. حضورﷺ نے اُس کا اسلام مُعتبر مانا. اگرچہ یک ہی جملہ ایک عالم فاضل بولے تو کُفر ہے اور موجب نار ہے.
انسان تقدیس ( بزرگی، پاکیزگی ) اور تسبیح (ذِکر، تعریف، ثنا، حمد) میں جو کچھ کہتا ہے الله تعالیٰ کی ذات اُس سے بلند ہے. اس لیئے اب جو بھی کہے اُس کو مت روکو. الله تعالیٰ کے احکاموں کی پابندی میں اللَه تعالیٰ کا کوئی فائدہ نہیں ہے پر بندے پابندی کر کہ رحم و کرم کے مستحق ہوتے ہیں. ہر مُلک والے اپنی لُغت میں اور اصطلاح میں تعاریف کر سکتے ہیں. اللّٰه تعالیٰ اپنے بندوں کی تسبیح سے پہلے ہی پاک ہیں. اللَّٰه تعالیٰ کی تسبیح موتی کے دانے ہیں. حدیثِ پاک میں ہے کہ اللّٰه تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مال کو نہیں دیکھتا پر تمہاری نیتوں اور اعمالوں کو دیکھ رہا ہے. اے موسیٰ علیه اسلام آداب جاننے والے اور ہیں. یہ لوگ، جن کے روح عِشق خداوندی میں جل چکے ہیں ان کی بات کچھ اور ہے. ویران گائوں سے کوئی ٹیکس وصول نہیں کیا جاتا بلکہ معاف کیا جاتا ہے. ایسے عاشقوں سے رسم کی پابندی کا مطالبہ نہیں کیا جاتا ..
جذبہ عِشق میں اللّٰه کی شان میں نامُناسب الفاظ بھی اللَّٰه کو پسند ہیں. جس طرح خون پلید ہے اور پر شھید کا خون اللّٰه تعالیٰ نے پاک قرار دیا ہے. اُس کو نہلايا نہیں جاتا. خون آلودہ شہید، پانی سے غسل کیئے ہوئے دوسری مَئیتوں سے افضل ہے. جب انسان بیت اللّٰه میں پہنچ کر نماز پڑھے تو پھر جنھاں چاہے وہاں مؤں کرکے پڑھ سکتا ہے . غلبہ حال میں فقط ذاتِ باری تعالیٰ کی طرف توجہ ہوتی ہے مذھبی رسموں اور قیدوں کی پابندی نہیں ہوتی. ہیرے پر اگرچہ مُھر نہیں تو پرواہ نہیں ہے، وہ خؤد قیمتی ہے. عاشق غم کے دریا سے غمگین نہیں ہوتا.
▼▼اس چرواہے سے معذرت کے سلسلے میں حضرت موسیٰ علیه اسلام پر وحی آنا.▼▼
بعـد ازاں درسِرِ ّ موسیٰ.ع حق
نہفترازہـائے گفــــت کاں ناید بگفــــت

ترجمہ : اس کے بعد اللّٰه تعالیٰ نے حضرت موسی علیه اسلام کے باطن میں وہ راز افشاں کیئے جو بیان نہیں کیئے جاسکتے.
حضرت موسیٰ علیه اسلام کو عروج حاصل ہوا اور کتنے ہی نئے انکشافات هوئے. عالمِ ملکوت کے احوال بیان اور عقل سے بالاتر ہیں. ذات اور صفات کا بیان عقل اور تحریر کے وس کا نہیں ہے. ان کیفیات کو خود پر طاری کرو تبھی کچھ معالوم ہوسکے گا. حضرت موسیٰ علیه اسلام نے جب اللَه تعالیٰ کی نارازگی معلوم کی تو جنگل میں اُس چوپان کے پیچھے بھاگے.
پاگلوں کے قدم بھی ٹیڑھے بیڑھے ہوتے ہیں. پاگل کبھی سیدھا بھاگتے نظر آتا ہے اور کبھی پیٹ کے بل رینگ کر. مجنوں لیلیٰ کا نام زمین پر لکھتا رہتا تھا. آخر کار وہ چوپان حضرت موسیٰ علیه اسلام کو مل گیا. موسیٰ علیه اسلام نے فرمایا کہ تمہیں اس طریقے پر مناجات کی اجازت مل گئی ہے. جو بھی تمہاری زبان پر آئے کہتا رھ، اوروں کے لیئے اگرچہ یہ ہی کلمات کفر کے ہوں مگر تمہارے لیئے عین دین ہیں. تمہیں خُدا کی طرف سے امن حاصل ہے اور تمہاری وجھہ سے دنیا کو بھی امن حاصل ہے. وَیَفَعَلُ اللّٰهُ مَایَشَآءُ (الابراھیم ـ ۲۷) �اللّٰه جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے. � اُس نے تمہیں ان کلمات کی اجازت دی ہے.
میں سدرۃالمنتھیٰ ( ساتویں آسمان پر بیر کے درخت کے جیسا درخت ہے، جو حضرت جبرائیل علیهِ السلام کی پرواز کی آخری حد ہے. ) سے آگے نکل گیا، جہاں غلبۂ حال میں نامناسب الفاظ استعمال کیئے، میری طبیعت کے لیئے، آپ کی تنبیھہ ایک تازیانہ ثابت ہوئی. "عالمِ ذاتِ الاہی" جس میں پُہنچ کر سالک کو فنا کا مقام حاصل ہو جاتا ہے،. ذوقی حالت کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا.
اللَه تعالیٰ کی تعریف ہر شخص اپنی استعداد مطابق کرتا ہےـ آئینے میں دیکھنے والے کا عکس نظر آتا ہے. الله تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ اپنی تعاریف اپنی شان کے مطابق کرے پر ہماری استعداد اس کو قبول نہیں کرسکتی. جیسے بانسری بجانے والا اپنی طاقت کے اعتبار سے بانسری میں پھونک نہیں بھرتا ورنہ اس کے پردے پھٹ جائیں. وی بانسری کے اعتبار سے اُس میں پھونک بھرتا ہے.
ہم جو بھی تعریف کرتیں ہیں وہ چرواہے کی تعریف کی طرح ہے. ہماری کی ہوئی تعریف خدا کے اعتبار سے ناقص ہے. آپ کی تعریف آپ کے اعتبار سے بہتر ہے. کاش اُس کی جگہ آپ کے دل میں سوزوگداز ( سوزشِ عشق) ہو. آمین. قیامت میں جب حجابات رفع ہو جائینگے تب آپ کو پتا لگ جائے گا کہ ذاتِ باری وہ نہ تہی جو آپ نے سمجھی تھی. ہماری ناقص تعریف کو اللّٰه تعالیٰ اپنی رحمت سے قبول کرتا ہے، جس طرح وہ مستحاضہ کی نماز کو باوجود طہارت نہ ہونے کہ قبول کرتا ہے. ہم جتنے قدر بھی تعاریف کرتیں ہیں اُس میں لامحالہ تشبیہات اور مثال ہوتے ہیں جو اللّٰه سبحان و تعالیٰ کی شان کے مناسب نہیں ہوتے. ہمارے مثالوں کی ناپاکی مستحاضہ کے خون سے بھی زیادہ ہے. ★باطنی نجاست فقط صرف رحمت کے ہی پانی سے دھوئی جاسکتی ہے.★ سجدے میں سبحان ربی الاَعلیٰ کی معنیٰ یہ ہیں کہ الله کا بندہ عرض کرتا ہے کہ میرا سجدہ بھی تمہارے لائق نہیں ہے اور یہ سجدہ تمہاری خدمت میں پیش کرنا گستاخی ہے پر تمہاری ذات وہ ہے جو برائی کا بدلا بھلائی سے دیتی ہے. قرآن پاک میں ہے کہ یُبَدِلُ اللّٰهُ سَیِاٰتِھِم حَسنٰتِ (الفرقان ـ ۷۰)✧ " الله ان کی برائیوں کو بھلائی سے تبدیل کرتا ہے."✧ زمین الله تعالیٰ کی صفت علم سے متصرف ہے. گوبر میں نجاستیں ہوتی ہیں. قیامت میں کافر سمجھے گا کہ وہ زمین سے بھی بدتر ہے. زمین برائی کا بدلا بھلائی سے دیتی ہے اور اس نے الله تعالیٰ کی نعمتوں کا بدلے کفر کیا. زمین نے ناپاک کو پاک کیا. کافر نے پاک کو ناپاک کیا. قیامت میں حسرت سے کافر بولے گا کہ کاش میں مٹی ہوتا تو برائی کا بدلا بھلائی سے دیسکتا زمین میں بیج بویا جاتا ہے تو وہ بدلے میں میوے اُگاتی . سفر کی حالت میں انسان کی سہی فطرت ظاہر ہو جاتی ہے. مجھے ترقی سے کوئی فائدہ نہیں ہوا اس کا یہ کہنا کہ یٰلَیتَنِی کُنتُ تُرٰباً " کاش میں مٹی ہوجاتا" یعنی مٹی بننے کی خواہش عجز و نیاز (عاجزی اور پوجا، بھینٹ، چڑھاوا، قربانی، نذر) میں سے ہے، جو الف کو پسند ہے. جیسے کچھ بزرگان سے اس کا اظھار ہوا ہے. کافر کے مٹی بن جانے کی خواھش کا مثال یہ ہے کہ گھاس میں جب تک نشونما ہے بڑھنے اور اوپر جانے کی خواھش ہے. جب مردہ ہوجاتا ہے تو اس کا جھکاؤ نیچے کی طرف ہو جاتا ہے. انسانی روح کو جب اوپر جانے کی خواھش ہوتی ہے تو اوپر جانے میں اس کو ترقی حاصل ہوتی ہے. جب روح اُلٹا ہوجاتا ہے تب زمین پر واپس ہونے کی خواھش کرتا ہے.



مثنوی ترجمہ...محمد علی



Masnavi by Molana Rumi r.a.
Masnavi Urdu Translation by Ali Danwer

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عقلمند کی دشمنی نادان کی دوستی سے بہتر ہے.

حضرت لقمان علیه السلام کی ذہانت کی آزمائش