حضرت لقمان علیه السلام کی ذہانت کی آزمائش

حضرت لقمان علیه السلام کی ذہانت کی آزمائش ..............................

اس قصے کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح حضرت لقمان علیه السلام نے دوست کے ہاتھوں کڑوا اخروٹ بھی رغبت (آمادگی، رضا مندی) سے کھایا، اسی طرح ایک انسان کو بھی من جانبِ اللّٰه مصیبتوں پہ راضی برضاءِ الاهی رہنا چاہیئے ـ


کیا ایسا نہیں تھا کہ لقمان علیه السلام جو کہ بھترین غلام تھا ،
رات دن خدمت گذاری میں چُست تھا ـ
آقا(مالک) اُن کو معزز اور اپنی اولاد سے زیادہ پیارا رکھتا تھا ـ حضرت لقمان علیه السلام کو اگرچہ ولی اور بزرگ مانا جائے تو غلام زادہ ہونے میں کوئی اعتراز نہیں ہے ـ اور اگرچہ وہ نبی تھے تو اُن کے والد کو جبراً غلام بنایا گیا ہوگا...

جیسے لقمان علیه السلام
ہوا اور ہوس سے آزاد تھے اس لیئے غلام نہیں پر آقا تھے.
ہوا اور ہوس
بادشاھ نے ایک بزرگ کو کہا کہ مجھسے بخشش / انعام میں کچھ مانگو. بزرگ نے کہا یہ بات تمہارے مقام سے گری ہوئی ہے. تمہیں شرم نہیں آرہی کہ مجھے بول رہے ہو؟ تم اپنے دو غلاموں کے غلام ہو. بادشاھ بولا وہ دو غلام کون سے ہیں؟ کہ غلاموں کا غلام ہونا میرے لیئے باعث ذلت ہے ـ بزرگ نے کہا ایک غصہ اور دوسرا شہوت ہےـ بادشاھ تو وہ ہے جو دنیا کی بادشاھت سے بھی بے نیاز (آزاد، الگ، بے تعلق، جدا) ہو ـ حقیقت میں لقمان علیه السلام سردار تھا اور اُن کا سردار حقیقت میں غلام تھا. یہ دنیا اُلٹی ہے، قیمتی چیز کو کمتر اور کمتر چیز کو قیمتی سمجھتی ہےـ یہ کہتے ہیں کے صحرا کامیابی کی جگہ ہے ہالانکہ یہ ایک حلاکت کی جگہ ہے. دنیا والے عزت اور غیرت کے خیال سے بےعقلی کے کام کرتے ہی. کپڑوں سے انسان کو پہچانتے ہیں پر اس کی کی حقیقت پر نظر نہیں رکھتے. گودڑ والے کو فقیر سمجھتے ہیں اور قبا والے پہننے والے کو معمولی انسان تصور کرتے ہیں. کچھ لوگ ظاہری مکاری کو دیکھ کر زُھد کے قائل بن جاتے ہیں. کسی کو جاننے کے لیئے قلبی نور درکار ہے جس میں انسان سے بات یا افعال دیکھے بغیر پہچانا جاسکتا ہے ـ
سچے عارف پر طالب کی دل کے احوال منکشف ہو جاتے ہیں .. جس طرح خیالات انسان کے دل میں آتے ہیں اسی طرح الله کے خاص بندے بھی کسی کہ دل میں گُھس کر پوشیدہ احوال ( خبر، حال، حالت، کیفیت) جان لیتے ہیں. انبیائوں اور عارفوں کو آسمانوں کی سیر کرائی جاتی ہے.
حضرت دائود علیه السلام کا معجزہ تھا کہ ان کے ہاتھ میں لوہا موم کی طرح نرم پڑ جاتا تھا. حضرت لقمان علیه السلام نے قصداً ظاہری طور پہ غلامی اختیار کی تھی ورنہ وہ آقا تھے. غلامی کی شکل اختیار کرنے کا سبب یہ ہے کہ اجنبی جگہ پر کچھ مصلحتِ وقت کے بناء پر زیادہ تر اپنے آپ کو غلام اور غلام کو شاھ ظاہر کرتے ہیں. کیونکہ اپنے کو بادشاھ زاہر کرنے میں خطرے ہوتے ہیں.
بہت سے بزرگ اپنی بزرگی کی اخفا (رازداری) کے لیئے معمولی کام اختیار کرتے ہیں تاکہ عوام کی نگھائوں سے چھپتے رہیں ـ بزرگانِ دین معمولی پیشہ اختیار کرتے ہیں. تاکہ ان کہ استعدادِ ( صلاحیّت، علمی مادہ، فطری صلاحیّت، قابلیّت، لیاقت) قُربِ الاھی میں اضافہ ہو.
جو لوگ حرص اور ہوا کے غلام ہیں یہ اپنی بڑھائی ظاہر کرتے ہیں ... بزرِگانِ دین ھمیشہ فروتنی ( خاک ساری، انکسار، بے مقدوری، عاجزی، کم حیثیتی ) اختیار کرتے ہیں..
جیسے کہ یہ واقعہ ہے کہ بظاہر حضرت لقمان علیه اسلام غلام اور اُن کا آقا، آقا ہے پر حقیقت میں حضرت لقمان علیه اسلام آقا اور ان کا آقا غلام ہے.
اسی طرح اس جهان اور عالمِ آخرت. میں اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جوکہ حقیقت میں ظاہر کے برعکس ہیں .. حضرت لقمان علیه اسلام کی خواھش تھی کہ اُن کا آقا ان کو غلام بنا کے رکھے. کمالات کو دوسرے لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رکھنا بھی ایک کمال ہے ـ پر اپنی ہی نگاہوں اپنے کمالات کمال نہ ہوں تو یہ سب سے بڑا کمال ہے ... خود اپنی ہی نظرِ بد سے اپنے عمل کو بچائو. اپنے آپ کو غلام سمجھ کر مزدوری کر تب جاکر اپنے رذائل کو اپنے سے چُرا کر غائب کر سکوگے ..
آفیم کھلا کر خودی مٹائی جاتی ہے، تب مریض کی اصلاح کی جاتی ہے. مطلب کہ خودی کو مِٹانے سے اصلاح ہوتی ہے. موت کہ وقت انسان جسمانی تکلیفات میں مبتلاء ہوتا ہے. تب اُس کی طرف توجہ جاتی ہے اور روح سے غفلت برتی جاتی ہے کہ روح چوری چلاجاتا ہے. انسان جس چیز کر طرف متوجہ ہوتا ہے وہ بچ جاتی ہے اور جس چیز سے غفلت برتتا ہے وہ چوری ہو جاتی ہے. قیمتی چیز کی طرف توجہ کر کہ ضائع نہ ہو جائے .. تم جب مطمئن ہو کر بے توجھی کرتے ہو تو چور وہ چیز چرالیا کرتا ہے. جس چیز کی طرف انسان فکر رکھتا ہے چور اُس کی طرف نہیں آتا. پہلے بزرگ رومی رح نے فرمایا کہ اچهی چیز کی طرف توجہ دو کہ معمولی چیز ضائع ہو جائے .. اور اچهی چیز بچ جائے .. اب اس کا مثال دے کر سمجھا رہے ہیں کہ اگر کشتی وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے ڈوب رہی ہوتی ہے تو معمولی چیزیں پھینکی جاتی ہیں. ایـــمــان بھی قیمتی چیز ہے اللّٰه تعالیٰ کی دربار میں پیش کرنا ہے. اس کی حفاظت کر، اپنے رذائل کی حفاظت نہ کر اور ان کو چوری ہونے دے.
حضرت لقمان علیہ کے آقا نے جب لقمان علیہ اسلام کو پہچانا تو ان کا غلام اور عاشق ہوگیاـ جب بزرگی کو پہچانا تو جب بھی کھانا آتا تو پہلے حضرت لقمان علیه اسلام کو کھلاتا تھا اور بعد میں بچاکچھا خود کھاتا تھاـ جو کھانا لقمان علیه اسلام نہیں کھاتے تھے تو وہ بھی وہ کھانا مکروہ سمجھ کر چھوڑ دیتا تھاـ ایک دفعہ کھانے میں تربوز آیا تو حضرت لقمان علیه اسلام وہاں موجود نہ تھے تو غلام کو بھیجا کہ جائے اور حضرت لقمان علیه اسلام کو لے آئے ـ جب لقمان علیه اسلام آئے تو تربوز کی پھانکیں کاٹ کر لقمان علیه اسلام کو کھلاتا رہا مالک دیتا گیا اور لقمان علیه اسلام کھاتے گئے یہاں تک کہ تربوز کی آخری پھانک جب مالک نے اپنی زبان پر رکھی تو ایسا لگا جیسے زھر زبان پر رکھی ہوـ مالک نے کہا کہ کڑوا تربوز کھانا اپنی جان کہ ساتھ دشمنی ہے آپ نے اتنا صبر کیوں کیا؟ اگر صاف انکار نہیں کرسکتے تھے تو کوئی عُذر ہی پیش کر دیتے ـ حضرت لقمان علیه اسلام نےفرمایا کہ جب اسی ہاتھ سی سینکڑوں میٹھی چیزیں کھائیں ہیں تو ایک کڑوی چیز کا انکار بےشرمی ہے ـ میرے بدن کے سارے اجزاء تمہارے نمک کے پروردہ ہیں ـ کسی بڑے محسن کی معمولی زیادتی پہ واویلا کرنا ذلیل حرکت ہے ـ محسن کے ہاتھ کی کڑوی چیز بھی کڑوی نہیں رہتی ـ بزرگ رومی ر.ح فرما رہے ہیں کہ محبت چیزوں کی حقیقت بدل دیتی ہے ـ محبت میں کڑوی چیز میٹھی لگنے لگتی ہے عشق اور محبت کامل عقل کا نتیجا ہیں ـ ناقص عقل بھی عشق ہی پیدا کرتا ہے مگر غیر واقعی معشوق سے کرتا ہے ـ ناقص عقل جب کسی چیز پر محبوب حقیقی کا عکس دیکھتا ہےتو اس کا گرویدہ ہو جاتا ہے ـ یہ دھوکا ایسے ہی ہےجیسے پرندہ شکاری کی سینڈ پر دھوکا کھا جاتا ہے اور اُس کو اپنے ہم جنس کی آواز سمجھکر جال میں پھنس جاتا ہے.



مثـــنوی مولانا رومی ر.ح
اردو ترجمہ .محمد علی

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عقلمند کی دشمنی نادان کی دوستی سے بہتر ہے.

*▼▼**ایک چرواہے کا دعا مانگنا اور حضرت موسیٰ علیه اسلام کا اُس کو ڈانٹنا..**▼▼*

حضرت لقمان علیه السلام کی ذہانت کی آزمائش