بی بی بلقیس کے دل پر حقیر ھُد ھُد کی صورت کے ذریعے حضرت سلــیمان علیه اسلام کی تعظیم کا عکس
بی بی بلقیس کے دل پر حقیر ھُد ھُد کی صورت کے ذریعے حضرت سلــیمان علیه اسلام کی تعظیم کا عکسبی بی بلقیس کے دل پر حقیر ھُد ھُد کی صورت کے ذریعے حضرت سلــیمان علیه اسلام کی تعظیم کا عکس ........
ملک یمن کے شھرِ سبا کی حکمران بی بی بلقیس تہیں جن کا قصہ قُرآن میں مذکور ہے ....
رحمتِ صد تو براں بلقےس باد
کہ خدایش عقلِ صد مرداں بداد
" اُس بلقیس پہ سؤ دفعہ رحمت ہو جس کو خدا نے سینکڑوں مردوں کا عقل عطا فرمایا."
بی بی بلقیس اگرچہ عورت تہی پر الله سبحان و تعالیٰ نے ان کو سؤ 100 مردوں کا عقل عطا فرمایا تھا. حضرت سلیمان علیه اسلام نے ھُد ھُد کے ذریعے بی بی بلقیس کو خط بھیجا تھا. وہ ظاہری طور پر تو ھُد ھُد ہی تھا پر جیساکہ حضرت سلــیمان علیه اسلام کا قاصد تھا، اسی لیئے باطنی نگاہ نے اس کو " عنقــا " سمجھا.
دو چیزیں جو بظاہر حقیر ہیں پر باطن میں عظیم ہیں، ان کے لیئے عقل اور حِس کے درمیاں جنگ ہوتی رہتی ہے. کافر، حضورﷺ کی ظاہری بشریت کو دیکھتے تھے. محض ظاہر بین نگاھ عقلی اور مذھب کی دشمن ہے، خدا نے اُن کو اندھا قرار دیا ہے. قرآن پاک میں ہے کہ" قُل ھَل یـَستَوِی الاَعمٰی وَ البَصِیرُ " (الانعام -۵۰) " تم فرماؤ کیا برابر ہوجائیں گے اندھے اور آنکھوں والے ". اس آیت میں اعمیٰ سے مراد میں وہ ہیں جو فقط حِسی آنکھہ سے کام لیتے ہیں اور قلبی نظر سے محروم ہیں. کــافروں کی ظاہر بین نظر نے حضورﷺ کا صرف ظاہر دیکھا، روحانی قوتوں کو نہ دیکھا. حضورﷺ قیامت کے آقا ہیں. کافر صرف حضورﷺ کی موجودہ زندگی کو دیکھتے ہیں. حضورﷺ ایک عظیم خزانہ ہیں، اُس میں سے ان کو صرف کوڑی اور دمڑی نظر آئی. حضورﷺ کا معجزہ شقِ القمر مشھور ہے. قرآن پاک میں اِذَا اسَّمآءُ انشَقَّت( انشقاق ـ ۱)
کی طرف اشارہ ہے. حضورﷺ کا معراج جسمانی تھا، معراجِ جسمانی صرف اللّٰه سبحان و تعالیٰ کا عطیہ تھا. ورنہ جسمانی حواس کی تقاضہ تو اس کے خلاف تھی.
سِفلی وہ چیزیں ہیں جن کی طبعی تقاضا زمین میں رہنے کی ہے. چار عنصروں میں سے ھوا اور آگ علوی ہیں، جن کی طبعی تقاضا اوپر جانے کی ہے. اللّٰه تعالیٰ اپنی قدرت سے درد کو دوا بنا دیتا ہے. زمین اور پانی سفلی ہیں. مٹی اور پانی سے بنے پیغمبروں کو اللّٰه تعالیٰ نے آسمانوں کا سیر کرایا. ہوا میں لطفات اور آگ میں روشنی ہے، قدرت ان میں سفلی خصوصیات کیسے پیدا کرتی ہے؟ اس راز کو سمجھنے میں کتنے جگر خون ہوئے ہیں. جو سفلی ہے الله تعالیٰ اس کو آسمانوں کی پرواز کراتا ہے. شیطان کو کہ عُلوی ہے اُس کو سفلی بنایاگیا. کچھہ فلسفی دوستوں کا خیال ہے کہ کائنات میں عناصرِ اربعہ بالاضطرار متصرف ہیں. کچھ فلسفیوں کا خیال ہے کہ اللّٰه تعالیٰ نے صرف عقلِ اول کو پیدا کیا اور اس سے ہی پوری کائنات وجود میں آئی ہے، اب کائنات میں اللّٰه تعالیٰ کا تصرف نہیں رہا.
انسان کے کام میں کوئی علت غائی اور غرض ہوتا ہے. اللّٰه تعالیٰ بے نیاز ہے. اپنے عام قاعدے میں اللّٰه تعالیٰ تبدیلی فرمانے میں قادر ہے. سمندر کو اگر حکم ہو تو پانی کی بجاءِ آگ سے بھر جائے. آگ کو حکم دے تو گُلزار بن جائے. پہاڑ کو حکم ہو تو وہ روئی بن جائے، جیسے قیامت میں ہوگا. آسمان زمین بن جائے قیامت میں سورج اور چاند آپس میں مل جائیں گے اور دونوں کا نور ختم ہو جائے گا. جیسے سورۃ تکویر میں ذکر ہے کہ "سورج بے نور ہوجائےگا".
خدا کی قدرت سے ہرن کی ناف میں خون مُشک بن جاتا ہے فقط صفات کی تبدیلی نہیں پر خدا چاہے تو ماھیت بھی بدل دے.
مثـــنوی مولانا رومی ر.حسندھیکار مولانا محمد رمضان مهیری. اردو ترجمہ .محمد علی
Urdu Translation by Ali Danwer
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں