ذولنون معنیٰ مچھلی والا. حضرت ثوبان بن ابراھیم رح پر یہ لقب پڑا ـ
ذولنون معنیٰ مچھلی والا. حضرت ثوبان بن ابراھیم رح پر یہ لقب پڑا ـ وہ ایک بہت بڑے بزرگ تھے جس کا سبب یہ بنا کہ ایک سفر کہ دوران ایک کشتی میں سوار تھے اور اس کشتی میں سے کسی تاجر کا ایک نایاب موتی چوری ہوگیا. لوگوں نے بزرگ پر تہمت لگائی اور اس وجہ سے حضرت ثوبان رح نے عاجزانہ دعا مانگی تو سینکڑوں مچہلیاں اپنے مُنہ میں اُس جیسے موتی لیکر نمودار ہوئیں ـ بزرگ رومی رح فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے "جنونِ عشق" کی نسبت سے ذولنون کے عشق کا قصّہ ذکر کیا پر اُس سے ہرگز یہ نہ سمجھنا کہ میں اپنے عشق کو اُن کے عشق جیسا سمجھتا ہوں. اُن کا عشق تمام بلند تھاـ وہ جنون عشق میں ریاکاروں (ڈھونگی ـ ظاہردار) کا پردہ فاش کرتے تھے، جس کی وجہ سے وہ لوگ شرمندہ ہوتے تھے. عوام میں فتنہ کرنہ ممنوع ہے مگر ذولنون اس سلسلے میں مجبور تھے.
عوام کی طرف سے ذولنون کو فقط قیدخانے کی تکلیف برداشت کرنی پڑی تھی دیگر بزرگوں کو تو جان کے خطرات لاحق ہوئے. عوام بزرگوں کے باطن نہیں سمجھ پائی. ان کے ظاہر پر بزرگی کی کوئی نشانی نہیں ہوتی.
پہلے بزرگ رومی رح نے ذولنون کو دُرِیتیم کہا تھا، مگر اب فرماتے ہیں کہ موتی نہیں بلکہ وہ لاکھوں موتیوں والا سمندر ایک قطرے میں ہے اور معرفت کا آفتاب ایک ذرے میں. عوام اُن کی بزرگی کو نہیں سمجھ سکا.
وقت کے بادشاھ کے وزیر نے علماء کو ظاہر پر فتویٰ دینے پر مجبور کیا تھا. ★ سورۃ آلِ عمران میں ذکر کیا ہے کہ وَیَقتُلُؤنَ الانبِیَآءَ بِغَیرِحَقّ ★ (آل عمران-¹¹²) ✧" اور پیغمبروں کو ناحق شہید کرتے "✧ ★سورۃ یاسین میں ہے کہ " قَالُوا اِنا تَطَیَّرنَابِکُم ( یاسین ۱۸) " ✧ گائوں والوں نے رسولﷺ کو کہا ہم آپ کے وجود سے بدفعلی لیتے ہیں✧"
پہلے بزرگ رومی رح نے جاہلوں کی دشمنی کا ذکر کیا تھا، اب جاہلوں کی محبت کا ذکر کر رہے ہیں ...
جاہلوں کے عقیدے مطابق حضرت عیسیٰ علیهَ السلام کو سولی پہ چڑھایا گیا تھا اور وہ خود کو نہیں بچا سکے اور یہ لوگ ان کے ذریعے اپنی نجات اور چہٹکارے کے کائل ہیں.
قران پاک میں ہے کہ★ وَمَا کَانَ اللّهُ لِیُعَذِبهُم وَاَنتَ فِیهِم ★ (سورۃانفال -۳۳) ✧حضور پاکﷺ کو خطاب ہے کہ " جب تک آپﷺ ان میں موجود ہیں ان پر عذاب نہیں آئے گا✧
بزرگ رومی رح فرماتے ہیں کہ "آپﷺ ان میں موجود ہیں" کا مطلب یہ ہے کہ جب تک قوم آپ کو نہ ستائے، تو محض موجود ہونا عذاب دفا کرنے کے لیئے کافی نہیں. اسی طرح محض الله والوں کا وجود عذاب کو نہیں ٹال سکتا اور جیساکہ ذولنون کو قوم نے ستایا تو قوم کا بچاؤ ممکن نہیں ـ
← خالص سون اور سونار جعلساز کو رُسوا اور خوار کرتے ہیں، اسی لیئے جعلساز کی دشمنی میں خطرہ محسوس کرتے ہیں. یہ ہی حال انبیاء و عارفوں کا عوام سے ہے.
بد لوگوں کی وجہ سے اچھے لوگوں کی زندگی تلخ ہو جاتی ہے. حضرت یوسف علیهِ اسلام کو حسد کی وجہ سے بھائیوں نے کوئین میں دھکیل دیا. حسد کی وجہ سے حضرت یوسف علیهِ اسلام کے بھائیوں نے جھوٹا افسانا بنایا. حضرت یوسف علیهِ اسلام کو بھیڑیوں نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا ـ بھائیوں کا حسد تکلیف کا سبب بنا ـ بھائیوں نے یہ کہا تھا کہ ہم لوگ دوڑ رہے تھے اور یوسف ع کو بھیڑیا لے گیا. اس مکاری کا سبب حسد تھا جو کہ بھیڑیوں سے بھی ممکن نہیں تھی. آخرکار بھائیوں کو حضرت یوسف علیهِ اسلام کی عظمت کا رسوا ہوکر مجبوراً اقرار کرنا پڑا، آخرت کی رسوائی یہ ہوگی کہ عام حاسدوں کو حشر بھیڑیوں کی شکل اختیار کرے گا. حضرت یوسف علیهِ اسلام کے بھائی تو توبہ تائب ہوگئے. اور ان میں سے ہر ایک کو مقامِ نبوت حاصل ہوا. اسی لیئے ان کا حشر بھیڑیوں کی شکل میں نہیں ہوگا.
☜حرامخور کا حشر خنزیر کی صورت میں ہوگا. زناکار کا حشر اس حالت میں ہوگا کہ ان کی شرمگاہیں جل رہی ہونگی. دلوں میں چھپی گندگی نمایاں و ظاہر ہونگی.
جنگل میں نقصان دہ جانور رہتے ہیں اسی طرح انسان کے وجود میں نقصان دہ خصلتیں ہیں. جو خصلت غالب ہوگی اسی کے مطابق حشر ہوگا. اشرفی میں تھوڑا سا پیتل ضرور ہوتا ہے مگر وہ سونا کہلاتی ہے. کسی وقت انسان میں اخلاقِ ضمیمہ (خراب ـ بری ـ بدصورت) کا غلبہ ( دباؤ، حکومت، زور، طاقت، قوت ) ہوتا ہے. کسی وقت اخلاقِ حمیدہ ( لائقِ ستائش خصلتیں، نیک خصائل ) کا غلبہ رہتا ہے ...
صحبت سے انسان میں برے اور اچھے اخلاق ابھرتے ہیں. حیوانات انسان کی صحبت متاثر ہوتے ہیں انسان کی صحبت سے کُتے میں کام کرنے کا حرص و حوس آتا ہے پھر وہ بکریوں کا چرہاوا یا شکاری یا نگھبان نبھاتا ہے. قطمیر نامی اصحابہِ کهف کا کُتا جو کہ جنت میں جائے گا. پهلے بزرگ رومی رح نے فرمایا کہ ایک سینے سے دوسرے سینے میں خیالات مُنتقل ہوتے ہیں اب وہ فرماتے ہیں کہ اگرچہ خفیہ راستے سے کچھ حاصل کرنا ہے تو عارفوں کے دل کے پاکیزہ خیالات حاصل کر.
▼ مریدین کا سمجھنا کہ ذلنون رح دیوانہ نہیں ہے ـ قصداً یہ حالت کی ہے ـ▼
مریدین قیدخانے کی طرف اُن کا حال دریافت کرنے گئے ـ ذولنون کی دیوانگی کے بارے میں مختلف راء کا اظھار کرنے لگے. کچھ کی راء یہ تھی کہ وہ قصداً دیوانہ بنا ہے. یا خدا نے دیوانہ بنایا ہے ـ اُس میں الله کی کوئی حکمت ہوگی. کچھ نے کہا یہ ممکن نہیں کہ اس جیسا عقلمند دیوانگی سے بیوقوفی کے کام کرے ـ جیسے کہ عقلمند لوگ باعث شرم کام کرنے لگے ہیں ، اسی لیئے اُس نے اپنے آپ کو دیوانہ کرکے ان کے زُمرے سے خارج کیا ہے ـ وہ جانتے بوجھتے قید خانے میں گیا ہے. اور پاگلوں کی طرح اپنے آپ کو گائیں کے چمڑے سے مار کھلا رہا ہے ـ
حضرت موسیٰ علیه السلام کے زمانے میں ایک بھتیجے نے اپنے چاچا کا قتل کیا تھا ـ قاتل کا پتا نہیں لگ رہا تھا. حضرت موسیٰ علیه السلام نے ایک گائیں ذبح کرائی اور اُس کا چمڑا اٹھا کر مُردے کو مارا تو وہ زندہ ہو گیا اور اس مردے نے اپنے قاتل کا پتا بتایا. اب جس طرح اس مقتول کی روح نے اسراروں کا انکشاف کیا اسی طرح جب انسان اپنی ھستی کو فنا کرتا ہے تو اُس پر اسرار (راز) منکشف ہونے لگتے ہیں. مقامِ فنا پر.پہنچ کر اسرارِ آخرت مُنکشف ہوجاتے ہیں اور انسان کو یہ محسوس ہوجاتا ہے کہ شیطان انسان کا قاتل ہے اور اس کے مکر و فریب کو پہچان جاتا ہے ـ تمام جلد اپنے نفس کی گائیں کو ذبح کر کہ تیرا مخفی روح ہوش میں آجائے .
اس بات کی ابتدہ اور انتہا تلاش نہ کر حضرت ذولنون کے پیروکاروں کا قصہ سُن جو پاگل خانے میں گئے تھے ـ
جب وہ لوگ وہاں پہنچے تو ذولنون چلانے لگا کہ خبردار کون ہو تم لوگ بھاگو یہاں سے ـ مریدین نے جواب دیا کہ ہم دوستوں میں ہیں ، آپ سے خیریت پوچھنے آئے ہیں. آپ کی عقل پہ جنون کا الزام جھوٹا ہے جیسے بھٹی کا دُھواں سورج تک نہیں پہنچ سکتا اور عنقا کوے سے شکست نہیں کھا سکتا، اسی طرح تمہاری عقل تک نہ جنون کی رسائی ممکن ہے اور نہ ہی آپ کی عقل جنون سے مغلوب ہوسکتی ہے ـ ہم سے حقیقت نہ چھپائیں ہم آپ کے دوست ہیں ـ روپوشی اور مکر سے فراق میں مبتلاء کرنا مناسب نہیں ہے. جب ذولنون نے ان کی بات سنی تو پاگلوں کی طرح ہنگامہ کرنے لگا اور اُن پر پتھروں کی بارش کرنے لگا. چوٹ لگنے کے ڈر سے یہ سب بھاگ نکلے. پھر وہ سر کو ہلاتے هوئے ہنسنے لگا کہ دوستی کی نشانی کہاں ہے؟ دوستی کی نشانی یہ ہی ہے کہ ھر حالت میں راضی برضا دوست رہے ـ جیسے سونا آگ سے نکہرتا ہے. اسی طرح دوستی میں دوست کی کی دی ہوئی تکالیف برداشت کرنے سے خلوص کا اظھار ہوتا ہے.
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں