عقلمند کی دشمنی نادان کی دوستی سے بہتر ہے.

ایک امیر کا اُس سوتے ہوئے کو تکلیف دینا جس کے منہ میں سانپ گھس گیا

اقلے براَسپ می آمد سوار

در دبانِ خفتہ می رفت مار


ایک عقلمند گھوڑے پر سوار تھا کہ اُس نے دیکھا کہ ایک سوتے ہوئے شخص کے منہ میں سانپ گھس رہا ہے۔

گھوڑے سوار نے دیکھا تو اس کی طرف بھاگا کہ اُس کو بچائے مگر موقعہ نہ ملا. سانپ اُس کے منہ میں گھس گیا. گھوڑے سوار عقلمند تھا سوتے ہوئے کو اس نے کوڑے مارنا شروع کیئے. اُس نے اٹھ کے دیکھا تو ایک تُرک گھوڑے سوار اس کو کوڑے لگا رہا ہے. حیران تھا کہ آخر کیوں مار رہا ہے ؟ سو اُٹھ کے بھاگا. دوڑتے دوڑتے ایک درخت کے پاس آکر پہنچا جہاں پر سڑے ہوئے سیب پڑے تھے. وہ سیب کھانے لگا. اتنے سیب کھائے جو اس کہ منہ سے آنے لگے. سوار نے بولا اور کھاؤ! بندہ بولا: میںنے تم پر کوئی ظلم تو نہیں کیا ـ تمہیں اگر مجھے مارنا ہے تو ایک دفعہ میں ہی مار دو. وہ شخص مبارکباد کے قابل ہے جس نے تمہارے جیسے ظالم کا چہرا نہیں دیکھا. خدا بے دین کو ایسی سزا دے. تُرک گھوڑے سوار نے سوتے ہوئے کا پیچھا نہ چھوڑا . دوبارہ دوڑنے پر مجبور کیا. اس کے پاؤں پھٹ گئے . سیبوں سے پیٹ بھرا ہوا تھا . شام تک تُرک گھوڑے سور نے اس کو دوڑایا. آخر اس نے اُلٹی کی جس میں سیبوں کے ساتھ سانپ بھی تھا. جب اس بندے کے پیٹ سے سانپ نکلا تب تعظیم کے لیئے تُرک کے سامنے جھک گیا . سانپ کے ڈر سے زخم سارے بھول گیا اور ترک گھوڑے سوار کو فرشتہ سمجھنے لگا. جس نے اس کو بچایا.
گدھے کے بھاگنے میں گدھے کی ہی ہلاکت ہے. اگر مالک گدھے کو نہیں پکڑے گا تو گدھے کو بھیڑیا یا کوئی دوسرا درندہ کھا جائے گا.
 تُرک گھوڑے سوار کو کہنے لگا: مبارک ہے وہ شخص جس نے تمہارا چہرا دیکھا. کیونکہ تم اُس کی نگھبانی کروگے. نیک لوگ بھی تمہاری تعریف کر رہے ہیں. میں نے نادانی کی وجہ سے بکواس کی، میرے پیٹ میں سانپ گھس گیا اور آپ نے اس کے نکالنے کی تدبیر کر رہے تھے. اگرچہ مجھے معلوم ہوتا تو میں بکواس نہ کرتا. اس کے بعد تُرک بولا: اگر سانپ کا، تمہارے پیٹ میں جانے والی بات کرتا تو تمہارا پتہ پھٹ جاتا، بدہواسی طاری ہوجاتی پھر نہ عاجزی کرنے کی طاقت رہتی نہ ہی روزے نماز کی. چوہا بلی کے آگے اور بکری کا بچہ بھیڑیئے کے آگے مردہ ہوجاتا ہے مگر میں بوبکر ربابی کی طرح خاموش رہا. *( بوبکر ربابی ایک مشھور بزرگ تھے جو چند سال خاموش رہے تھے)*.  
جب حدیبیہ کے موقعہ پر حضورﷺ نے اپنا ہاتھ صحابہ کے ہاتھ میں رکھ کر بیعت لی تھی اس پر یہ آیت نازل ہوئی تھی یـَـدُاللّٰهِ فوق اَیدیھم (الفتح ـ ۱۰)* . مطلب *ان کے ہاتھوں میں اللّٰه کا ہاتھ ہے* اس آیت. یں اللّٰه تعالٰی نے آپﷺ کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا. شق القمر کا معوجزہ آپﷺ کی ایک اُنگلی سے ظاہر ہوا تھا. آپﷺ کے ہاتھ کو الله کا ہاتھ ہمیں سمجھانے کے لیئے ہے. باقی قدرت کے راز قیامت میں کُھلیں گے. 
اب مولانا رومی اصل قصے کی طرف واپسی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سوتا ہوا نہ بھاگ سک رہا تھا نہ اُلٹی کر پا رہا تھا مگر دل میں *رب یَســر " اے خدا میری مشکل آسان کر" کہ رہا تھا. 
اھِد قومی اِنھم لا یعلمُونَ: " میری قوم کو ہدایت کر یہ نہیں جانتے". 
آپﷺ نے یہ دعا اس وقت کی تھی جب طائف میں آپﷺ کے دشمنوں نے ستایہ تھا. 
جب وہ شخص تُرک گھوڑے سوار کی مھربانیوں کو سمجھ گیا تب تعظیم کے لیئے جُھک گیا اور کہنے لگا میں کس منہ سے آپ کی تعریف کروں! *مولانا رومی ر.ح. اس قصے میں یہ سمجھایا ہے کہ عقلمند کی دشمنی نادان کی دوستی سے بھتر ہے. اب وہ بیوقوف کی دوستی کا ایک قصہ بتاتے ہیں....
ایک شخص کا ریچھ کی چاپلوسی اور وفاداری پر بھروسہ کرنا۔۔۔۔۔۔

مثـــنوی مولانا رومی ر.ح
سندھیکار مولانا محمد رمضان مهیری.
اردو ترجمہ .محمد علی

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

*▼▼**ایک چرواہے کا دعا مانگنا اور حضرت موسیٰ علیه اسلام کا اُس کو ڈانٹنا..**▼▼*

حضرت لقمان علیه السلام کی ذہانت کی آزمائش